
Four Books Set | Arshad Mehmood
Pickup currently not available
یقین نہیں آتا کہ ایسے دلچسپ کتب کے مصنفین سے بھی ہمارا کسی طرح ربط ہوسکتا ہے۔ یہ ذیل میں سر ارشد محمود صاحب کی تصنیف " تصورِ خدا" ہے۔ جسے میں دوسری دفعہ مطالعہ کررہا ہوں۔ ایک چھوٹی سی کتاب ہے پر موضوع، اسلوب و مواد کے لحاظ سے بالکل ہی منفرد و باکمال۔
"تصورِ خدا" جیسا کہ کتاب کی ٹائٹل سے ظاہر ہے، کتنی نازک و مشکل موضوع پہ لکھی گئی ہے۔ ایک ایسی گتھی جو روزِ اول سے انسانیت کو فکرمند کی ہوئی ہے۔ جس کے ساتھ انسان کا ازل سے تعلق رہا ہو، کو زیرِ قرطاس لانا کوئی سہل کام نہیں۔ چنانچہ موصوف کا اس موضوع پہ قلم اٹھانا واقعی قابلِ قدر کارنامہ ہے۔
موضوع چونکہ مابعد الطبیعات سے علاقہ رکھتی ہے۔ اور یوں ہر ایک "آزاد ذہن" رکھنے والا اسے موضوعی طور پہ ہی ڈیل کرتا ہے۔ لہذا اس کتاب کو پڑھ کہ آپ تاریخ کے عظیم دماغوں کے "خداوں" سے واقفیت حاصل کریں گے۔ ایک "عام مذہبی کا خدا، صوفی کا خدا، شاعر کا خدا، فلسفی کا خدا وغیرہ وغیرہ۔
المختصر "سوچنے اور جاننے کی جستجو رکھنے والوں" کیلئے ایک مفید کتاب ہے۔
دوم یہ اس مذکورہ معمہ کا کوئی حتمی حل بالکل بھی نہیں۔ لہذا اصولاً بھی اسے پڑھ کے ڈائریکٹ کسی نتیجہ پہ پہنچ جانا درست نہیں۔
بہرحال ہمیں فخر ہیکہ مصنف محترم ہماری فہرستِ احباب میں شامل ہے۔ اور اس کتاب کے علاوہ چار اور کتب کے مصنف بھی ہے۔ جن میں "تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں" نمایاں ہے۔ جو کہ تاحال پڑھی ہوئی نہیں ہے پر انشاء اللہ چند سرگرمیاں انجام دے کے پہلی فرصت میں پڑھنے کا ارادہ ہے۔
ہم نے اپنے ماحول اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو اس حد تک جامد، خشک، بور، بے کیف، حسن اور لطف سے عاری کر رکھا ہے کہ بحیثیت حیوان جن جبلی جنگلی خوشیوں پر ہمارا حق ہو سکتا تھا، یہ کہہ کر کہ ہم حیوان نہیں انسان ہیں، اُن سے خود کومحروم کر لیا، اور انسان ہونے کے ناطے جن خوشیوں پر حق ہو سکتا تھا انھیں یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم انسان نہیں مسلمان ہیں۔ یہ ہے ہمارا ثقافتی المیہ ہمارا شمار حیوانوں میں ہے نہ انسانوں میں۔ ثقافت نے حیوانیت اور انسانیت کے دائرے میں ہی رہ کر پرورش پانا تھا۔ نتیجہ یہ کہ ہم اجتماعی طور پر حسن کے احساس اور خوشیوں کی لذت سے آشنا ہی نہیں ہیں، بلکہ ان کے بیری بن چکے ہیں۔ اب سنجیدگی کا مارا، تاریکی پسند اور جمالیاتی حسوں سے محروم انبوہ کثیر، عالمی تہذیب نو سے اپنی ثقافتی ، سیاسی اور معاشی دشمنی میں اضافہ کیے چلا جارہا ہے۔ بربادی اور موت کی علامتوں سے اپنی شاہراہوں کو سجانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ خود ساختہ اخلاقیات اور پارسائی کے خبط نے ماحول میں مردنی، گھٹن اور بے کیفی اس حد تک پیدا کر رکھی ہے کہ اس کے اندر زندگی اور دنیا کو خوبصورت بنانے یا اسے ترقی دینے کی لگن اور دلچسپی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔۔۔
ثقافتی گھٹن اور پاکستانی معاشرہ
مصنف ارشد محمود
صفحات 160
کتاب " تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں " پڑھنے کے بعد یہ ارشد محمود صاحب کی دوسری کتاب ہے جو میں نے پڑھا۔ اس کتاب کو پڑھتے پڑھتے میرے آنکھوں نے کئی چیزوں کو دیکھنا شروع کردیا جو ہمیشہ سے میرے اردگرد ہوتے آرہے تھے۔ ایسی ہزاروں چیزیں ہے جو ہمارے پھیروں کے زنجیر بنے ہوئے ہیں اور ہم نے بخوشی انہیں تسلیم کر کے ان کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔
میں ارشد محمود صاحب کا انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں نے اتنی خوبصورتی کے ساتھ سادہ اور آسان الفاظ میں سب کچھ روز روشن کی طرح ہم سب کے سامنے عیاں کردیا۔
Shipping & Returns
DELIVERY TIME 2 To 4 WORKING DAYS. BOOKS RETURN TIME START AFTER RECEIVING BOOK ( 7 DAYS )
Top Book Recommendations